سموئیل ۲ باب 13
1. اور اِسکے بعد اَیسا ہُؤا کہ داؔؤد کے بیٹے ابؔی سلوم کی ایک خُوبصُورت بہن تھھی جِسکا نام تؔمر تھا ۔ اُس پر داؔؤد کا بیٹا امؔنون عاشِق ہو گیا۔
2. اور امؔنون اِیسا کُڑھنے لگا کہ وہ اپنی بہن تؔمر کے سبب سے بیمار پڑ گیا کیونکہ وہ کُنواری تھی ۔ سو اؔمنون کو اُسکے ساتھ کُچھ کرنا دُشوار معلوم ہُؤا۔
3. اور داؔؤد کے بھائی سمؔعہ کا بیٹا یُونؔدب امنوؔن کا دوست تھا اور یُونؔدب بڑا چالاک آدمی تھا۔
4. سو اُس نے اُس سے کہا اَے بادشاہ زادے ! تُو کیون دِن بدِن دُبلا ہوتا جاتا ہے؟ کیا تُو مجھے نہیں بتائیگا؟ تب امنؔون نے اُس سے کہا کہ مَیں اپنے بھائی ابؔی سلوم کی بہن تؔمر پر عاشق ہُوں ۔
5. یُونؔدب نے اُس سے کہا تُو اپنے بستر پر لیٹ جا اور بیماری کا بہانہ کر لے اور جب تیرا باپ تجھے دیکھنے آئے تو تُو اُس سے کہنا میری بہن تؔمر کو ذرا آنے دے کہ وہ مجھے کھانا دے اور میرے سامنے کھانا پکائے تا کہ مَیں دیکھوُں اور اُسکے ہاتھ سے کھاؤں ۔
6. سو امؔنوُن پڑ گیا اور اُس نے بیماری کا بہانہ کر لیا اور جب بادشاہ اُسکو دیکنھے آیا امؔنوُن نے بادشاہ سے کہا میری بہن تُمر کو ذرا آنے دے کہ وہ میرے سامنے دو پُوریاں بنائے تاکہ مَیں اُسکے ہاتھ سے کھاؤُں ۔
7. (7-8) سو تُمر اپنے بھائی امؔنوُن کے گھر گئی اور وہ بِستر پر پڑا ہُؤا تھااور اُس نے آٹا لیا اور گوُندھا اور اُسکے سامنے پُوریاں بنائیں اور اُنکو پکایا ۔
8. 9. اور توے کو لیا اور اُسکے سامنے اُنکو اُنڈیل دیا پر اُس نے کھانے سے اِنکار کیا ۔ تب امؔنوُن نے کہا کہ سب آدمیوں کو میرے پاس سے باہر کر دو۔ سو ہر ایک آدمی اُسکے پاس سے چلا گیا۔
10. تب امؔنوُن نے تؔمر سے کہا کہ کھانا کوٹھری کے اندر لے آتاکہ مَیں تیرے ہاتھ سے کھاؤُں ۔ سو تؔمر وہ پُوریاں جو اُس نے پکائی تھیں اُٹھا کر اُنکو کوٹھری میں اپنے گھائی امنؔوُن کے پاس لائی۔
11. اور جب وہ اُنکو اُسکے نزدیک لے گیئی کہ وہ کھائے تو اُس نے اُسے پکڑ لیا اور اُس سے کہا اَے میری بہن مجھ سے وصل کر ۔
12. اُس نے کہا نہیں میرے بھائی میرے ساتھ جبر نہ کر کیونکہ اِسرائیلیوں میں کوئی ایَسا کام نہیں ہونا چاہئے ۔ تُو اَیسی ھماقت نہ کر۔
13. اور بھلا میں اپنی رُسوائی کہاں لئے پھرُونگی؟ اور تُو بھی اِسرائیلیوں میں احمقوں میں سے ایک کی مانند ٹھہریگا ۔ سو تُو بادشاہ سے عرض کر کیونکہ وہ مجھ کو تجھ سے روک نہیں رکھّیگا۔
14. لیکن اُس نے اُسکی بات نہ مانی اور چُونکہ وہ اُس سے زور آور تھا اِسلئے اُس نے اُسکے ساتھ جبر کیا اور اُس سے صُحبت کی۔
15. پھر امؔنوُن کو اُس سے بڑی سخت نفرت ہوغئی کوینکہ اُسکی نفرت اُسکے جذبہ عشق سے کہیں بڑھکر تھی۔ سو امؔنوُن نے اُس سے کہا اُٹھ چلی جا۔
16. وہ کہنے لگی اَیسا نہ ہوگا کیونکہ یہ ظُلم کہ تُو مجھے نِکالتا ہے اُس کام سے جو تُو نے مجھ سے کیا بدتر ہے پر اُس نے اُسکی ایک نہ سُنی ۔
17. تب اُس نے اپنے ایک ملازم کو جو اُسکی خدمت کر تا تھا بُلا کر کہا اِس عورت کو میرے پاس سے باہر نِکال دے اور پیچھے دروازہ کی چٹکنی لگا دے ۔
18. اور وہ رنگ برنگ کا جوڑا پہنے ہوُئے تھی کیونکہ بادشاہوں کی کنواری بیٹیاں اَیسی ہی پوشاک پہنتی تھیں۔ غرض اپسکے خادِم نے اُسکو باہر کر دیا اور اُسکے پیچھے چٹکنی لگا دی۔
19. اور تؔمر نے اپنے سر پر خاک ڈالی اور اپنے رنگ برنگ کے جوڑے کو جو پہنے ہُوئے تھی چاک کیا اور سر پر ہاتھ دھر کر روتی ہُوئی چلی۔
20. اُسکے بھائی ابؔی سلوم نے اُس سے کہا کیا تیرا بھائی امنؔوُن تیرے ساتھ رہا ہے؟ خَیر اَے میری بہن اب چُپکی رہ رہ کیونکہ وہ تیرا بھائی ہے اور اِس بات کا غم نہ کر ۔ سو تؔمر اپنے بھائی ابؔی سلوم کے گھر میں بے کس پڑی رہی۔
21. اور جب داؔؤد بادشاہ نے یہ سب باتیں سُنیں تو نہایت غُصہ ہُؤا ۔
22. اور ابؔی سلوم نے اپنے بھائی امنؔوُن سے کچھ بُرا بھلا نہ کہا کیونکہ ابؔی سلوم کو امؔنون سے نفرت تھی اِسلئے کہ اُس نے اُسکی بہن تؔمر کے ساتھ جبر کا تھا۔
23. اور اَیسا ہوا کہ پورے دو سال کے بعد بھیڑوں کے بال کترنے والے ابؔی سلوم کے ہاں بعل حؔصور میں تھے جو افؔرائیم کے پاس ہے اور ابؔی سلوم نے بادشاہ کے سب بیٹوں کو دعوت دی۔
24. سو ابؔی سلوم نے بادشاہ کے پاس آکر کہنے لگا تیرے خادِم کے ہاں بھیڑوں کے بال کترنے والے آؑے ہیں سو مَیں مِنت کرتا ہُوں کہ بادشاہ مع اپنے مُلازِموں کے اپنے خاد،م کے ساتھ چلے۔
25. تب بادشاہ نے ابؔی سلوم سے کہا نہیں میرے بیٹے ہم سب کے سب نہ چلیں تا نہ ہو کہ تجھ پر ہم بوجھ ہو جائیں اور وہ اُس سے بجد ہُؤا تو بھی وہ نہ گیا پر اُسے دُعا دی۔
26. تب ابیؔ سلوم نے کہا اگر اَیسا نہیں ہو سکتا تو میرے بھائی امنؔون کو تو ہمارے ساتھ جانے دے۔ بادشاہ نے اُس سے کہا وہ تیرے ساتھ کیوں جائے؟۔
27. لیکن ابؔی سلوم اَیسا بجد ہُؤا کہ اُس نے امنؔون اور سب بادشاہ زادوں کو اُسکے ساتھ جانے دِیا۔
28. اور ابؔی سلوم نے اپنے خادِموں کو حُکم دیا کہ دیکھو جب امؔنون کا دِل مَے سے سرُور میں ہو اور مَیں تمکو کُہوں کہ امؔنون کو مارو تو تُم اُسے مار ڈالنا ۔ خَوف نہ کرنا ۔ کیا مہں نے تُم کو حُکم نہیں دِیا؟ دِلیر اور بہادُر بنے رہو۔
29. چنانچہ ابؔی سلوم کے نوکروں نے امنؔون سے وَیسا ہی کیا جَیسا ابؔی سلوم نے حُکم دیا تھا۔ تب سب بادشاہ زادے اُٹھے اور ہر ایک اپنے خچّر پر چڑھ کر بھاگا۔
30. اور وہ ہنوز راستہ ہی میں تھے کہ داؔؤد کے پاس یہ خبر پُہنچی کہ ابیؔ سلوم نے سب بادشاہ زادوں کو قتل کر ڈالا ہے اور اُن میں سے ایک بھی باقی نہیں بچا۔
31. تب بادشاہ نے اُٹھ کر اپنے کپڑے پھاڑے اور زمین پر پڑ گیا اور اُسکے سب مُلازِم کپڑے پھاڑے ہُوئے اُسکے حُضُور کھڑے رہے ۔
32. تب داؔؤد کے بھائی سمؔعہ کا بیٹا یوؔندؔب کہنے لگا کہ میرا مالک یہ خیال نہ کرے کہ اُنہوں نے سب جوانوں کو جو بادشاہ زادے ہیں مار ڈالا ہے اِسلئے کہ صرف امؔنون ہی مرا ہے کیونکہ ابؔی سلوم کے اِنتظام سے اُسی دِن سے یہ بات ٹھان لی گئی تھی جب اُس نے اُسکی بہن تؔمر کے ساتھ جبر کیا تھا۔
33. سو میرا مالک بادشاہ اَیسا خیال کر کے کہ سب بادشاہ زادے مر گئے اِس بات کا غم نہ کرے کیونکہ صرف امؔنون ہی مرا ہے۔
34. اور بؔی سلوم بھاگ گیا اور اُس جوان نے جو نگہبان تھا اپنی آنکھیں اُٹھا کر نگاہ کی اور کیا دیکھا کہ بہت سے لگ اُسکے پیچھے کی طرف سے پہاڑ کے دامن کے راستہ سے چلے آرہے ہیں ۔
35. تب یونؔدب نے بادشاہ سے کہا کہ دیکھ بادشاہ زادے آگئے۔ جَیسا تیرے خادِم نے کہا تھا وَیسا ہی ہے۔
36. (36-37) اُس نے اپنی بات ختم ہی کی تھی کہ بادشاہ زادے آ پہنچے اور چلاّ چلاّ کر رونے لگے اور بادشاہ اور اُسکے سب مُلازِم بھی زار زار روئے۔ لیکن ابؔی سلوم بھاگ کر جؔسُور کے بادشاہ عؔمّیہوُد کے بیٹے تؔلمی کے پاس چلا گیا اور داؔؤد ہر روز اپنے بیٹے کے لئے ماتم کرتا رہا۔
37. 38. سو ابؔی سلوم بھاگ کر جؔسُور کو گیا اور تین برس تک وہیں رہا۔
39. اور داؔؤد بادشاہ کے دِل میں ابؔی سلوم کے پاس جانے کی بڑی آرزو تھی کیونکہ امؔنون کی طر سے اُسے تسلّی ہو گئی تھی اِسلئے کہ وہ مر چُکا تھا۔