استثنا باب 1
1. یہ وہی باتیں ہیں جو موسیٰ نے یردن کے اُس پار بیابان میں یعنی اُس میدان میں جو سوف کے مقابل اور فاران اور طوفل اور لابن اور حصیرات اور دیذہب کے درمیان ہے سب اسرائیلیوں سے کہیں ۔
2. کوہِ شعیر کی راہ سے حورب سے قادس برنیع تک گیارہ دن کی منزل ہے ۔
3. اور چالیسیویں برس کے گیارھویں مہینے کی پہلی تاریخ کو موسیٰ نے اُن سب احکام کے مطابق جو خداوند نے اُسے بنی اسرائیل کے لیے دیے تھے اُن سے یہ باتیں کیں ۔
4. یعنی جب اُس نے اموریں کے بادشاہ سیحون کو جو حسبون میں رہا تھا مارا اور بسن کے بادشاہ عوج کو جو عستارات میں رہتا تھا اور عی میں قتل کیا۔
5. تو اِس کے بعد یردن کے پار موآب کے میدان میں موسیٰ اِس شریعت کو یُوں بیان کنے لگا کہ ۔
6. خُداوند ہمارے خدا کے حورب میں ہم سے یہ کہا تھا کہ تُم اِس پہاڑ پر بہت رہ چُکے ہو ۔
7. سو اب پھر و اور کُوچ کرو اور اموریوں کے کوہستانی مُلک اور اُس کے آس پاس کے میدان اور پہاڑی قطعہ اور نشیب کی زمین اور جنوبی اطراف میں سمندر کے ساحل تک جو کعنانیوں کا مُلک ہے بلکہ کوہِ لُبنان اور دریای فرات تک جو ایک بڑا دریا ہے چلے جاو۔
8. دیکھو میں نے اِس مُلک کو تمہارے سامنے کر دیا ہے پس جاو اور اُس مُلک کو اپنے قبضہ میں کر لو جس کی باب نمبرت خداوند تمہارے باپ دادا ابراہام اور اضحاق اور یعقوب سے قسم کھا کر یہ کہا تھا کہ وہ اُسے اُنکو اور اُنکے بعد اُنکی نسل کو دے گا ۔
9. اُس وقت میں نے تُم سے کہا تھا کہ میں اکیلا تمہارا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا ۔
10. خداوند تمہارے خُدا نے تُمکو بڑھایا ہے اور آج کے دن آسمان کے تاروں کی مانند تمہاری کثرت ہے ۔
11. خداوند تمہارے خدا نے تُمکو اِس سے بھی ہزار چند بڑھائے اور جو وعدہ اُس نے تُم سے کیا ہے اُسکے مطابق تُمکو برکت بخشے ۔
12. میں اکیلا تمہارے جنجال اور بوجھ اور جھنجٹ کا کیسے متحمل ہو سکتا ہوں؟
13. سو تُم اپنے اپنے قبیلہ سے ایسے آدمیوں کو چُنو جو دانشور اور عقلمند اور مشہور ہوں اور میں اُنکو تُم پر سردار بنا دونگا ۔
14. اِس کے جواب میں تُم سے مجھ سے کہا تھا کہ جو کچھ تُو نے فرمایا ہے اُسکا کرنا بہتر ہے ۔
15. سو میں نے تمہارے قبیلوں کے سرداروں کو جو دانشور اور مشہور تھے لیکر اُنکو تُم پر مقرر کیا تاکہ وہ تمہارے قبیلوں کے مطابق ہزاروں کے سردار اور سینکڑوں کے سردار اور پچاس پچاس کے سردار اور دس دس کے سردار حاکم ہوں ۔
16. اور اُسی موقع پر میں نے تمہارے قاضیوں سے تاکید اً یہ کہا کہ تُم اپنے بھائیوں کے مقدسوں کو سُننا پر خواہ بھائی بھائی کا معاملہ ہو یا پردیسی کا تُم اُنکا فیصلہ انصاف کے ساتھ کرنا ۔
17. تمہارے فیصلہ میں کسی کی رو رعایت نہ ہو ۔ جیسے بڑےے آدمی کی بات سُنو گے ویسے ہی چھوٹے کی سُننا اور کسی آدمی کا منہ دیکھ کر ڈر نہ جانا کیونکہ یہ عدالت خدا کی ہے جو مقدمہ تمہارے لیے مُشکل ہو اُسے میرے پاس لے آنا ۔ میں اُسے سُنوں گا ۔
18. اور مَیں نے اُسی وقت سب کچھ جو تُم کو کرنا ہے بتا دیا ۔
19. اور ہم خداوند اپنے خدا کے حکم کے مطابق حورب سے کُوچ کر کے اُس بڑے اور ہولناک بیابان میں سے ہو کر گزرے جسے تُم نے اموریوں کے کوہستانی مُلک کے راستہ میں دیکھا ۔پھر ہم قادس برنیع میں پہنچے ۔
20. وہاں میں نے تُم کو کہا کہ تُم اموریوں کے کوہستانی مُلک تک آگئے ہو جسے خداوند ہمارا خدا ہمکو دیتا ہے ۔
21. دیکھ اُس مُلک کو خداوند تیرے خدا نے تیرے سامنے کر دیا ہے ۔ سو تُو جا اور جیسا خداوند تیرے باپ دادا کے خدا نے تُجھ سے کہا ہے تُو اُس پر قبضہ کر اور نہ خوف کھا نہ ہراساں ہو۔
22. تب تُم سب نیرے پاس آکر مجھ سے کہنے لگے کہ ہم اپنے جانے سے پہلے وہاں آدمی بھیجیں جو جا کر ہماری خاطر اُس مُلک کا حال دریافت کریں اور آکر ہمکو بتائیں کہ ہمکو کس راہ سے وہاں سے جانا ہو گا اور کون کون سے شہر ہمارے راستہ میں پڑیں گے ۔
23. یہ بات مجھے بہت پسند آئی ۔ چنانچہ میں نے قبیلہ پیچھے ایک ایک آدمی کے حساب سے بارہ آدمی چُنے۔
24. اور وہ روانہ ہووئے اور پہاڑ پر چڑھ گئے اور وادیِ اِسکال میں پہنچ کر اُس مُلک کا حال دریافت کیا ۔
25. اور اُس مُلک کا کچھ پھل ہاتھ میں لیکر اُسے ہمارے پاس لائے اور ہمکو یہ خبر دی کہ جو مُلک خداوند ہمارا خدا ہمکو دیتا ہے وہ اچھا ہے ۔
26. تو بھی تُم وہاں جانے پر راضی نہ ہوئے بلکہ تُم نے خداوند اپنے خدا کے حکم سے سرکشی کی ۔
27. اور اپنے خیموں میں کُڑکُڑانے اور کہنے لگے کہ خداوند کو ہم سے نفرت ہے اِسی لیے وہ ہمکو مُلکِ مصر سے نکال لایا تاکہ وہ ہمکو اموریوں کے ہاتھ میں گرفتار کرا دے اور وہ ہمکو ہلاک کر ڈالیں ۔
28. ہم کدھر جا رہے ہیں ؟ ہمارے بھائیوں نے تو یہ بتا کر ہمارا حوصلہ توڑ دیا ہے کہ وہاں کے لوگ ہم سے بڑے بڑے اور لمبے ہیں اور یہ اُنکے شہر بڑے بڑے اور اُنکی فصلیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں ، ماسوائے اِس کے ہم نے وہاں عناقیم کی اولاد کو بھی دیکھا ۔
29. تب میں نے تُمکو کہا کہ خوفزدہ مت ہو اور نہ اُن سے ڈرو ۔
30. خداوند تمہارا خدا جو تمہارے آگے آگے چلتا ہے وہی تمہاری طرف سےجنگ کرے گا جیسے اُس نے تمہاری خاطر مصر میں تمہاری آنکھوں کے سامنے سب کچھ کیا ۔
31. اور بیابان میں بھی تُو نے یہی دیکھا کہ جس طرح انسان اپنے بیٹے کو اُٹحائے ہوئے چلتا ہے اُسی طرح خداوند تیرا خدا تیرے اِس جگہ پہنچنے تک سارے راستے جہاں جہاں تُم گئے تمکو اُٹھائے رہا ۔
32. تو بھی اِس بات میں تُم نے خداوند اپنے خدا کا یقین نہ کیا ۔
33. جو راہ میں تُم سے آگے آگے تمہارے واسطے ڈیرے ڈالنے کی جگہ تلاش کرنے کے لیے رات کو آگ میں اور دن کو ابر میں ہو کر چلا تاکہ تُم کو وہ راستہ دکھائے جس سے تُم چلو ۔
34. اور خداوند تمہاری باتیں سُنکر غضبناک ہوا اور اُس نے قسم کھا کر کہا کہ ۔
35. اِس بڑی پُشت کے لوگوں میں سے ایک بھی اُس اچھے مُلک کو دیکھنے نہیں پائے گا جسے اُنکے باپ دادا کو دینے کی قسم مَیں نے کھائی ہے ۔
36. سو ایفنہ کے بیٹے کالب کے ۔ وہ اُسے دیکھے گا اور جس زمین پر اُس نے قدم مارا ہے اُسے مَیں اُسکو اور اُسکی نسل کو دونگا اِس لیے کہ اُس نے خداوند کی پیروی پورے طور پر کی ۔
37. اور تمہارے ہی سبب سے خداوند مجھ پر بھی غصہ ہوا اور یہ کہا کہ تُو بھی وہاں جانے نہ پائے گا ۔
38. نون کا بیٹا یشوع جو تیرے سامنے کھڑا رہتا ہے وہاں جائے گا ۔ سو تُو اُسکی حوصلہ افزائی کر کیونکہ وہی بنی اسرائیل کو اُس مُلک کا مالک بنائے گا ۔
39. اور تمہارے بال بچے جنکےبارے میں تُم نے کہا تھا کہ لُوٹ میں جائیں گے اور تمہارے لڑکے بالے جنکو آج بھلے اور بُرے کی بھی تمیز نہیں ۔ یہ وہاں جائیں گے اور یہ مُلک میں اِن ہی کو دونگا اور یہ اُس پر قبضہ کریں گے ۔
40. پر تمہارے لیے یہ ہے کہ تُم لوٹو اور بحرِ قُلزم کی راہ سے بیابان میں جاو۔
41. تب تُم نے مجھے جواب دیا کہ ہم نے خداوند کا گناہ کیا ہے اور اب جو کچھ خداوند ہمارے خدا نے ہمکو حک دیا ہے اُس کے مطابق ہم جائیں گے اور جنگ کریں گے ۔ سو تُم سب اپنے اپنے جنگی ہتھیار باندھ کر پہاڑ پر چڑھ جانے کو ا ٓمادہ ہو گئے ۔
42. تب خداوند نے مجھ سے کہا کہ اُن سے کہہ دے کہ اوپر مت چڑھو اور نہ جنگ کرو کیونکہ میں تمہارے درمیان نہیں ہوں تا ایسا نہ ہو کہ تُم اپنے دُشمنوں سے شکست کھاو۔
43. اور میں نے تُم سے کہہ بھی دیا پر تُم نے میری نہ سُنی بلکہ تُم نے خداوند کے حکم کی سرکشی کی اور شوخی سے پہاڑ پر چڑھ گئے۔
44. تب اموری جو اُس پہاڑ پر رہتے تھے تمہارے مقابلہ کو نکلے اور اُنہوں نے شہد کی مکھیوں کی مانند تمہارا پیچھا کیا اور شعیر میں مارتے مارتے تُمکو حُرمہ تک پہنچا دیا ۔
45. تب تُم لوٹ کر خداوند کے آگے رونے لگے پر خداوند نے تمہاری فریاد نہ سُنی اور نہ تمہاری باتوں پر کان لگایا ۔
46. سو تُم قادس میں بہت دنوں تک پڑے رہے یہاں تک کہ ایک مُدت ہو گئی ۔