حزقی ایل باب 18
1. اور خداوند کا کلام مجھ پر نازل ہوا۔
2. کہ تم اسرائیل کے ملک کے حق میںکیوں یہ مثل کہتے ہو کہ باپ دادا نے کچے انگور کھائے اور اولاد کے دانت کھٹے ہوئے؟
3. خداوند خدا فرماتا ہے مجھے اپنی حیات کی قسم کہ تم پھر اسرائیل میں یہ مثل نہ کہو گے۔
4. دیکھ سب جانیں میری ہیں جیسی باپ کی جان ویسی ہی بیٹے کی جان بھی میری ہے۔
5. جو جان گناہ کرتی ہے وہی مرے گی۔ لیکن جو انسان صادق ہے اور اس کے کام عدالت و انصاف کے مطابق ہیں ۔
6. جس نے بتوں کی قربانی سے نہیں کھایا اور بنی اسرائیل کے بتوں کی طرف اپنی آنکھیں نہیں اٹھائیں اور اپنے ہمسایہ کی بیوی کو ناپاک نہیں کیا اور عورت کی ناپاکی کے وقت اس کے پاس نہیں گیا۔
7. اور کسی پر ستم نہیں کیا اور قرضدار کا گرو واپس کر دیا اور ظلم سے کچھ چھین نہیں لیا۔ بھوکوں کو اپنی روٹی کھلائی اور ننگوں کو کپڑا پہنایا۔
8. سود پر لین دین نہیں کیا۔ بد کرداری سے دستبردار ہوا اور لوگوں میں سچا انصاف کیا۔
9. میرے آئن پر چلا اور میرے احکام پر عمل کیا تاکہ راستی سے معاملہ کرے ۔وہ صادق ہے۔ خداوند خدا فرماتا ہے وہ یقینا زندہ رہے گا۔
10. پر اگر اس کے ہاں بیٹا پیدا ہو جو راہزنی یا خونریزی کرے اور ان گناہوں میں سے کوئی گناہ کرے۔
11. اور ان فرائض کو بجا نہ لائے بلکہ بتوں کی قربانی سے کھائے اور اپنے ہمسائے کی بیوی کو ناپاک کرے ۔
12. غریب اور محتاج پر ستم کرے۔ ظلم کرکے چھین لے۔ گرو واپس نہ لے اور بتوں کی طرف اپنی آنکھیں اٹھائے اور گھنونے کام کرے۔
13. سود پر لین دین کرے تو کیا وہ زندہ رہے گا؟ وہ زندہ نہ رہے گا۔ اس نے یہ سب نفرتی کام کئے ہیں۔ وہ یقینا مرے گا۔ اس کا خون اسی پر ہوگا ۔
14. لیکن اگر اس کے ہاں ایسا بیٹا پیدا ہو جو ان تمام گناہوں کو جو اس کا باپ کرتا ہے دیکھے اور خوف کھا کر اس کے سے کام نہ کرے۔
15. اور بتوں کی قربانی سے نہ کھائے اور بنی اسرائیل کے بتوں کی طرف اپنی آنکھیں نہ اٹھائے اور اپنے ہمسایہ کی بیوی کو ناپاک نہ کرے۔
16. اور کسی پر ستم نہ کرے۔ گرو نہ لے اور ظلم کر کے کچھ چھین نہ لے۔ بھوکے کو اپنی روٹی کھلائے اور ننگے کو کپڑے پہنائے۔
17. غریب سے دستبردار ہو اور سود پر لین دین نہ کرے پر میرے احکام پر عمل کرے اور میرے آئین پر چلے وہ اپنے باپ کے گناہوں کےلئے نہ مرے گا۔ وہ یقینا زندہ رہے گا۔
18. لیکن اس کا باپ چونکہ اس نے بے رحمی سے ستم کیا اور اپنے بھائی کو ظلم سے لوٹا اور اپنے لوگوں کے درمیان برے کام کئے اس لئے وہ اپنی بد کرداری کے باعث مرے گا۔
19. تو بھی تم کہتے ہو کہ بیٹا باپ کے گناہ کا بوجھ کیوں نہیں اٹھاتا؟ جب بیٹے نے وہی جو جائز اور روا ہے کیا اور میرے سب آئین کو حفظ کر کے ان پر عمل کیا تو وہ یقینا زندہ رہے گا۔ جو جان گناہ کرتی ہے وہی مرے گی۔
20. بیٹا باپ کے گناہ کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور نہ باپ بیٹے کے گناہ کا بوجھ۔ صادق کی صداقت اسی کےلئے ہو گی اور شریر کی شرارت شریر کےلئے ۔
21. لیکن اگر شریراپنے تمام گناہوں سے جو اس نے کئے ہیں باز آئے اور میرے سب آئین پر چل کر جو جائز اور روا ہے کرے تو وہ یقینا زندہ رہے گا۔ وہ نہ مرے گا۔
22. وہ سب گناہ جو اس نے کئے ہیں اس کے خلاف محسوب نہ ہوں گے۔ وہ اپنی راستبازی میں جو اس نے کی زندہ رہے گا۔
23. خداوند خدا فرماتا ہے کیا شریرکی موت میں میری خوشی ہے اور اس میں نہیں کہ وہ اپنی روش سے باز آئے اور زندہ رہے؟
24. لیکن اگر صادق اپنی صداقت سے باز آئے اور گناہ کرے اور ان سب گھنونے کاموں کے مطابق جو شریر کرتا ہے کرے تو کیا وہ زندہ رہے گا؟ اس کی تمام صداقت جو اس نے کی فراموش ہوگی۔ وہ اپنے گناہوں میں جو اس نے کئے ہیں اور اپنی خطاﺅں میں جو اس نے کی ہیں مرے گا۔
25. تو بھی تم کہتے ہو کہ خداوند کی روش راست نہیں۔ اے بنی اسرائیل سنو تو۔ کیا میری روش راست نہیں؟ کیا تمہاری روش نا راست نہیں؟
26. جب صادق اپنی صداقت سے باز آئے اور بدکرداری کرے اور اس میں مرے تو وہ اپنی بدکرداری کے سبب سے جو اس نے کی ہے مرے گا۔
27. اور اگر شریر اپنی شرارت سے جو وہ کرتا ہے باز آئے اور وہ کام کرے جو جائز اور روا ہے تو وہ اپنی جان زندہ رکھے گا۔
28. اس لئے کہ اس نے سوچااور اپنے سب گناہوں سے جو کرتا تھا باز آیا۔ وہ یقینا زندہ رہے گا اور نہ مرے گا۔
29. تو بھی بنی اسرائیل کہتے ہیں کہ خداوند کی روش راست نہیں۔
30. پس خداوند خدا فرماتا ہے اے بنی اسرائیل میں ہر ایک کی روش کے مطابق تمہراری عدالت کروں گا توبہ کرو اور اپنے تمام گناہوں سے باز آﺅ تاکہ بدکرداری تماہری ہلاکت کا باعث نہ ہو۔
31. ان تمام گناہوں کو جن سے تم گناہگار ہوئے دور کرو اور اپنے لئے نیا دل اور نئی روح پیدا کرو۔ اے بنی اسرائیل تم کیوں ہلاک ہوگئے؟
32. کیونکہ خداوند خدا فرماتا ہے کہ مجھے مرنے والے کی موت سے شادمانی نہیں ۔ اس لئے باز آﺅ اور زندہ رہو۔