انجیل مقدس

خدا کا فضل تحفہ

اعمال باب 27

1 جب جہاز اطالیہ کو ہمارا جانا ٹھہر گیا تو اُنہوں نے پولُس اور بعض اَور قَیدیوں کو شہنشاہی پلٹن کے ایک صُوبہ دار یُولیُس نام کے حوالہ کِیا۔ 2 اور ہم ادر مُتیُمّ کے ایک جہاز پر آسیہ کے کِنارے کی بندر گاہوں میں جانے کو تھا سوار ہوکر روانہ ہُوئے اور تھِّسلُِینکے کا ارِسترخُس مَکِدُنی ہمارے ساتھ تھا۔ 3 دوُسرے دِن صَیدا میں جہاز ٹھہرا اور یُولیُس نے پولُس پر مِہربانی کر کے دوستوں کے پاس جانے کی اِجازت دی تاکہ اُس کی خاطِر داری ہو۔ 4 وہاں سے ہم روانہ ہُوئے اور کُپُرس کی آڑ میں ہوکر چلے اِس لِئے کہ ہوا مُخالِف تھی۔ 5 پِھر ہم کِلِکیہ اور پمفِیلیہ کے سَمَندَر سے گُزر کر لُوکیہ کے شہر مُورہ میں اُترے۔ 6 وہاں صُوبہ دار کو اِسکندریہ کا ایک جہاز اِطالیہ جاتا ہُؤا مِلا۔ پَس ہم کو اُس میں بِٹھا دِیا۔ 7 اور ہم بہُت دِنوں تک آہِستہ آہِستہ چل کر جب مُشکِل سے کَنِدُس کے سامنے پُہنچے تو اِس لِئے کہ ہوا ہم کو آگے بڑھنے نہ دیتی تھی سلمونے کے سامنے سے ہوکر کریتے کی آڑ میں چلے۔ 8 اور بپُشکِل اُس کے کِنارے کِنارے چل کر حسِین بندر نام ایک مقام میں پہُنچے جِس سے لسَیَہ شہر نزدِیک تھا۔ 9 جب بہُت عرصہ گُزر گیا اور جہاز کا سفر اِس لِئے خطرناک ہوگیا کہ روزہ کا دِن گُزر چُکا تھا تو پولُس نے اُنہِیں یہ کہہ کر نِصیحت کی۔ 10 کہ اَے صاحِبو! مُجھے معلُوم ہوتا ہے کہ اِس سفر میں تکِیف اور بہُت نقُصان ہوگا۔ نہ صِرف مال اور جہاز کا بلکہ ہماری جانوں کا بھی۔ 11 مگر صُوبہ دار نے نا خُدا اور جہاز کے مالِک کی باتوں پر پولُس کی باتوں سے زیادہ لحِاظ کِیا۔ 12 اور چُونکہ وہ بندر جاڑوں میں رہنے کے لِئے اچھّا نہ تھا اِس لِئے اکثر لوگوں کی صلاح ٹھہری کہ وہاں سے روانہ ہوں اور اگر ہوسکے تو فِینِکس میں پہُنچ کر جاڑا کاٹیں۔ وہ کریتے کا ایک بندرہے جِس کا رُخ شِمال مشِرق اور جنُوب مشِرق کو ہے۔ 13 جب کُچھ کُچھ دکِھّنا ہوا چلنے لگی تو اُنہوں نے یہ سَمَجھ کر کہ ہمارا مطلب حاصِل ہوگیا لنگر اُٹھایا اور کریتے کے کِنارے کے قرِیب قرِیب چلے۔ 14 لیکِن تھوڑی دیر ایک بڑی طُوفانی ہوا جو یُورکلُون کہلاتی ہے کریتے پرسے جہاز پر آئی۔ 15 اور جب جہاز ہوا کے قابُو میں آگیا اور اُس کا سامنا نہ کرسکا توہم نے لاچار ہوکر اُس کو بہنے دِیا۔ 16 اور کَودہ نام ایک چھوٹے جزِیرہ کی آڑ میں بہُتے بہُتے ہم بڑی مُشِکل سے ڈونگی کو قابُو میں لائے۔ 17 اور جب مَلّاح اُس کو اُوپر چڑھا چُکے تو جہاز کی مضبُوطی کی تدبِیریں کر کے اُس کو نِیچے سے باندھا اور سُوررِس کے چور بالُو میں دھس جانے کے ڈر سے جہاز کا ساز و سامان اُتار لِیا اور اُسی طرح بہُتے چلے گئے۔ 18 مگر جب ہم نے آندھی سے بہُت ہچکولے کھائے تو دوُسرے دِن وہ جہاز کا مال پھینکنے لگے۔ 19 اور تیِسرے دِن اُنہوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے جہاز کے آلات واسباب بھی پھینک دِئے۔ 20 اور جب بہُت دِنوں تک نہ سُرج نظر آیا نہ تارے اور شِدّت کی آندھی چل رہی تھی تو آخر ہم کو بچنے کی اُمِید بِالکُل نہ رہی۔ 21 اور جب بہُت فاقہ کرچُکے تو پولُس نے اُن کے بِیچ میں کھڑے ہوکر کہا اَے صاحِبو! لازم تھا کہ تُم میری بات مانکر کریتے سے روانہ نہ ہوتے اور یہ تکلِیف اور نُقصان نہ اُٹھاتے۔ 22 مگر اَب میں تُم کو نصِیحت کرتا ہُوں کہ خاطِر جمع رکھّو کِیُونکہ تُم میں سے کِسی کی جان کا نُقصان نہ ہوگا مگر جہاز کا۔ 23 کِیُونکہ خُدا جِس کا مَیں ہُوں اور جِس کی عِبادت بھی کرتا ہُوں اُس کے فِرشتہ نے اِسی رات کو میرے پاس آ کر۔ 24 کہا اَے پولُس! نہ ڈر۔ ضرُور ہے کہ تُو قَیصر کے سامنے حاضِر ہو اور دیکھ جِتنے لوگ تیرے ساتھ جہاز میں سوار ہیں اُن سب کی خُدا نے تیری خاطِر جان بخشی کی۔ 25 اِس لِئے اَے صاحِبو! خاطِر جمع رکھّو کِیُونکہ مَیں خُدا کا یقِین کرتا ہُوں کہ جَیسا مُجھ سے کہا گیا ہے وَیساہی ہوگا۔ 26 لیکِن یہ ضرُور ہے کہ ہم کِسی ٹاپُو میں جاپڑیں۔ 27 جب چَودھوِیں رات ہُوئی اور ہم بحِر اور یہ میں ٹکراتے پِھرتے تھے تو آدھی رات کے قرِیب مَلّاحوں نے اٹکل سے معلُوم کِیا کہ کِسی مُلک کے نزدِیک پہُنچ گئے۔ 28 اور پانی کی تھاہ لے کر بِیس پرُسہ پایا اور تھوڑا آگے بڑھ کر اور پِھر تھاہ لے کر پندرہ پرُسہ پایا۔ 29 اور اِس ڈر سے کہ مبادا چٹانوں پر جاپڑیں جہاز کے پِیچھے سے چار لنگر ڈالے اور صُبح ہونے کے لِئے دُعا کرتے رہے۔ 30 اور جب مَلّاحوں نے چاہاکہ جہاز پر سے بھاگ جائیں اور اِس بہانہ سے کہ گلہی سے لنگر ڈالیں ڈونگی کو سُمندر میں اُتارا۔ 31 تو پولُس نے صُونہ دار اور سپاہِیوں سے کہا کہ اگر یہ جہاز پر نہ رہیں گے تو تُم نہِیں بچ سکتے۔ 32 اِس پر سپاہِیوں نے ڈونگی کی رسّیاں کاٹ کر اُسے چھوڑ دِیا۔ 33 اور جب دِن نِکلنے کو ہُؤا تو پولُس نے سب کی مِنّت کی کہ کھانا کھالو اور کہا کہ تُم کو اِنتظار کرتے کرتے اور فاقہ کھینچتے آج چَودہ دِن ہوگئے اور تُم نے کُچھ نہِیں کھایا۔ 34 اِس لِئے تُمہاری مِنّت کرتا ہُوں کہ کھانا کھالو کِیُونکہ اِس پر تُمہاری بِہتری مَوقُوف ہے اور تُم میں سے کِسی کے سرکا ایک بال بِیکانہ ہوگا۔ 35 یہ کہہ کر اُس نے روٹی لی اور اُن سب کے سامنے خُدا کا شُکر کِیا اور توڑ کر کھانے لگا۔ 36 پِھر اُن سب کی خاطِر جمع ہُوئی اور آپ بھی کھانا کھانے لگے۔ 37 اور ہم سب مِل کر جہاز میں دوسَو چھہتّر آدمِی تھے۔ 38 جب وہ کھا کر سیر ہُوئے تو گیہُوں کو سُمندر میں پھینک کر جہاز کو ہلکا کرنے لگے۔ 39 جب دِن نِکل آیا تو اُنہوں نے اُس مُلک کو نہ پہچانا مگر ایک کھاڑی دیکھی جِس کا کِنارہ صاف تھا اور صلاح کہ اگر ہوسکے تو جہاز کو اُس پر چڑھالیں۔ 40 پَس لنگر کھولکر سُمندر میں چھوڑ دِئے اور پتواروں کی بھی رسّیاں کھول دِیں اور اگلا پال ہُؤا کے رُخ پر چڑھا کر اُس کِنارے کی طرف چلے۔ 41 لیکِن ایک اَیسی جگہ جا پڑے جِس کی دونوں طرف سُمندر کا زور تھا اور جہاز زمِین پر ٹِک گیا۔ پَس گلہی تو دھکا کھا کر پھنس گئی مگر دُنبالہ لہروں کے زور سے ٹُوٹنے لگا۔ 42 اور سِپاہیوں کی یہ صلاح تھی کہ قَیدیوں کو مار ڈالیں کہ اَیسا نہ ہو کوئی تَیرکر بھاگ جائے۔ 43 لیکِن صُوبہ دار نے پولُس کو بَچانے کی غرض سے اُن کو اِس اِرادہ سے باز رکھّا اور حُکم دِیا کہ جو تیَر سکتے ہیں پہلے کُود کر کِنارے پر چلے جائیں۔ 44 اور باقی لوگ بعض تختوں پر اور بعض جہاز کی اَور چِیزوں کے سہارے سے چلے جائیں اور اِسی طرح سب کے سب خُشکی پر سَلامت پہُنچ گئے۔
1 جب جہاز اطالیہ کو ہمارا جانا ٹھہر گیا تو اُنہوں نے پولُس اور بعض اَور قَیدیوں کو شہنشاہی پلٹن کے ایک صُوبہ دار یُولیُس نام کے حوالہ کِیا۔ .::. 2 اور ہم ادر مُتیُمّ کے ایک جہاز پر آسیہ کے کِنارے کی بندر گاہوں میں جانے کو تھا سوار ہوکر روانہ ہُوئے اور تھِّسلُِینکے کا ارِسترخُس مَکِدُنی ہمارے ساتھ تھا۔ .::. 3 دوُسرے دِن صَیدا میں جہاز ٹھہرا اور یُولیُس نے پولُس پر مِہربانی کر کے دوستوں کے پاس جانے کی اِجازت دی تاکہ اُس کی خاطِر داری ہو۔ .::. 4 وہاں سے ہم روانہ ہُوئے اور کُپُرس کی آڑ میں ہوکر چلے اِس لِئے کہ ہوا مُخالِف تھی۔ .::. 5 پِھر ہم کِلِکیہ اور پمفِیلیہ کے سَمَندَر سے گُزر کر لُوکیہ کے شہر مُورہ میں اُترے۔ .::. 6 وہاں صُوبہ دار کو اِسکندریہ کا ایک جہاز اِطالیہ جاتا ہُؤا مِلا۔ پَس ہم کو اُس میں بِٹھا دِیا۔ .::. 7 اور ہم بہُت دِنوں تک آہِستہ آہِستہ چل کر جب مُشکِل سے کَنِدُس کے سامنے پُہنچے تو اِس لِئے کہ ہوا ہم کو آگے بڑھنے نہ دیتی تھی سلمونے کے سامنے سے ہوکر کریتے کی آڑ میں چلے۔ .::. 8 اور بپُشکِل اُس کے کِنارے کِنارے چل کر حسِین بندر نام ایک مقام میں پہُنچے جِس سے لسَیَہ شہر نزدِیک تھا۔ .::. 9 جب بہُت عرصہ گُزر گیا اور جہاز کا سفر اِس لِئے خطرناک ہوگیا کہ روزہ کا دِن گُزر چُکا تھا تو پولُس نے اُنہِیں یہ کہہ کر نِصیحت کی۔ .::. 10 کہ اَے صاحِبو! مُجھے معلُوم ہوتا ہے کہ اِس سفر میں تکِیف اور بہُت نقُصان ہوگا۔ نہ صِرف مال اور جہاز کا بلکہ ہماری جانوں کا بھی۔ .::. 11 مگر صُوبہ دار نے نا خُدا اور جہاز کے مالِک کی باتوں پر پولُس کی باتوں سے زیادہ لحِاظ کِیا۔ .::. 12 اور چُونکہ وہ بندر جاڑوں میں رہنے کے لِئے اچھّا نہ تھا اِس لِئے اکثر لوگوں کی صلاح ٹھہری کہ وہاں سے روانہ ہوں اور اگر ہوسکے تو فِینِکس میں پہُنچ کر جاڑا کاٹیں۔ وہ کریتے کا ایک بندرہے جِس کا رُخ شِمال مشِرق اور جنُوب مشِرق کو ہے۔ .::. 13 جب کُچھ کُچھ دکِھّنا ہوا چلنے لگی تو اُنہوں نے یہ سَمَجھ کر کہ ہمارا مطلب حاصِل ہوگیا لنگر اُٹھایا اور کریتے کے کِنارے کے قرِیب قرِیب چلے۔ .::. 14 لیکِن تھوڑی دیر ایک بڑی طُوفانی ہوا جو یُورکلُون کہلاتی ہے کریتے پرسے جہاز پر آئی۔ .::. 15 اور جب جہاز ہوا کے قابُو میں آگیا اور اُس کا سامنا نہ کرسکا توہم نے لاچار ہوکر اُس کو بہنے دِیا۔ .::. 16 اور کَودہ نام ایک چھوٹے جزِیرہ کی آڑ میں بہُتے بہُتے ہم بڑی مُشِکل سے ڈونگی کو قابُو میں لائے۔ .::. 17 اور جب مَلّاح اُس کو اُوپر چڑھا چُکے تو جہاز کی مضبُوطی کی تدبِیریں کر کے اُس کو نِیچے سے باندھا اور سُوررِس کے چور بالُو میں دھس جانے کے ڈر سے جہاز کا ساز و سامان اُتار لِیا اور اُسی طرح بہُتے چلے گئے۔ .::. 18 مگر جب ہم نے آندھی سے بہُت ہچکولے کھائے تو دوُسرے دِن وہ جہاز کا مال پھینکنے لگے۔ .::. 19 اور تیِسرے دِن اُنہوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے جہاز کے آلات واسباب بھی پھینک دِئے۔ .::. 20 اور جب بہُت دِنوں تک نہ سُرج نظر آیا نہ تارے اور شِدّت کی آندھی چل رہی تھی تو آخر ہم کو بچنے کی اُمِید بِالکُل نہ رہی۔ .::. 21 اور جب بہُت فاقہ کرچُکے تو پولُس نے اُن کے بِیچ میں کھڑے ہوکر کہا اَے صاحِبو! لازم تھا کہ تُم میری بات مانکر کریتے سے روانہ نہ ہوتے اور یہ تکلِیف اور نُقصان نہ اُٹھاتے۔ .::. 22 مگر اَب میں تُم کو نصِیحت کرتا ہُوں کہ خاطِر جمع رکھّو کِیُونکہ تُم میں سے کِسی کی جان کا نُقصان نہ ہوگا مگر جہاز کا۔ .::. 23 کِیُونکہ خُدا جِس کا مَیں ہُوں اور جِس کی عِبادت بھی کرتا ہُوں اُس کے فِرشتہ نے اِسی رات کو میرے پاس آ کر۔ .::. 24 کہا اَے پولُس! نہ ڈر۔ ضرُور ہے کہ تُو قَیصر کے سامنے حاضِر ہو اور دیکھ جِتنے لوگ تیرے ساتھ جہاز میں سوار ہیں اُن سب کی خُدا نے تیری خاطِر جان بخشی کی۔ .::. 25 اِس لِئے اَے صاحِبو! خاطِر جمع رکھّو کِیُونکہ مَیں خُدا کا یقِین کرتا ہُوں کہ جَیسا مُجھ سے کہا گیا ہے وَیساہی ہوگا۔ .::. 26 لیکِن یہ ضرُور ہے کہ ہم کِسی ٹاپُو میں جاپڑیں۔ .::. 27 جب چَودھوِیں رات ہُوئی اور ہم بحِر اور یہ میں ٹکراتے پِھرتے تھے تو آدھی رات کے قرِیب مَلّاحوں نے اٹکل سے معلُوم کِیا کہ کِسی مُلک کے نزدِیک پہُنچ گئے۔ .::. 28 اور پانی کی تھاہ لے کر بِیس پرُسہ پایا اور تھوڑا آگے بڑھ کر اور پِھر تھاہ لے کر پندرہ پرُسہ پایا۔ .::. 29 اور اِس ڈر سے کہ مبادا چٹانوں پر جاپڑیں جہاز کے پِیچھے سے چار لنگر ڈالے اور صُبح ہونے کے لِئے دُعا کرتے رہے۔ .::. 30 اور جب مَلّاحوں نے چاہاکہ جہاز پر سے بھاگ جائیں اور اِس بہانہ سے کہ گلہی سے لنگر ڈالیں ڈونگی کو سُمندر میں اُتارا۔ .::. 31 تو پولُس نے صُونہ دار اور سپاہِیوں سے کہا کہ اگر یہ جہاز پر نہ رہیں گے تو تُم نہِیں بچ سکتے۔ .::. 32 اِس پر سپاہِیوں نے ڈونگی کی رسّیاں کاٹ کر اُسے چھوڑ دِیا۔ .::. 33 اور جب دِن نِکلنے کو ہُؤا تو پولُس نے سب کی مِنّت کی کہ کھانا کھالو اور کہا کہ تُم کو اِنتظار کرتے کرتے اور فاقہ کھینچتے آج چَودہ دِن ہوگئے اور تُم نے کُچھ نہِیں کھایا۔ .::. 34 اِس لِئے تُمہاری مِنّت کرتا ہُوں کہ کھانا کھالو کِیُونکہ اِس پر تُمہاری بِہتری مَوقُوف ہے اور تُم میں سے کِسی کے سرکا ایک بال بِیکانہ ہوگا۔ .::. 35 یہ کہہ کر اُس نے روٹی لی اور اُن سب کے سامنے خُدا کا شُکر کِیا اور توڑ کر کھانے لگا۔ .::. 36 پِھر اُن سب کی خاطِر جمع ہُوئی اور آپ بھی کھانا کھانے لگے۔ .::. 37 اور ہم سب مِل کر جہاز میں دوسَو چھہتّر آدمِی تھے۔ .::. 38 جب وہ کھا کر سیر ہُوئے تو گیہُوں کو سُمندر میں پھینک کر جہاز کو ہلکا کرنے لگے۔ .::. 39 جب دِن نِکل آیا تو اُنہوں نے اُس مُلک کو نہ پہچانا مگر ایک کھاڑی دیکھی جِس کا کِنارہ صاف تھا اور صلاح کہ اگر ہوسکے تو جہاز کو اُس پر چڑھالیں۔ .::. 40 پَس لنگر کھولکر سُمندر میں چھوڑ دِئے اور پتواروں کی بھی رسّیاں کھول دِیں اور اگلا پال ہُؤا کے رُخ پر چڑھا کر اُس کِنارے کی طرف چلے۔ .::. 41 لیکِن ایک اَیسی جگہ جا پڑے جِس کی دونوں طرف سُمندر کا زور تھا اور جہاز زمِین پر ٹِک گیا۔ پَس گلہی تو دھکا کھا کر پھنس گئی مگر دُنبالہ لہروں کے زور سے ٹُوٹنے لگا۔ .::. 42 اور سِپاہیوں کی یہ صلاح تھی کہ قَیدیوں کو مار ڈالیں کہ اَیسا نہ ہو کوئی تَیرکر بھاگ جائے۔ .::. 43 لیکِن صُوبہ دار نے پولُس کو بَچانے کی غرض سے اُن کو اِس اِرادہ سے باز رکھّا اور حُکم دِیا کہ جو تیَر سکتے ہیں پہلے کُود کر کِنارے پر چلے جائیں۔ .::. 44 اور باقی لوگ بعض تختوں پر اور بعض جہاز کی اَور چِیزوں کے سہارے سے چلے جائیں اور اِسی طرح سب کے سب خُشکی پر سَلامت پہُنچ گئے۔
  • اعمال باب 1  
  • اعمال باب 2  
  • اعمال باب 3  
  • اعمال باب 4  
  • اعمال باب 5  
  • اعمال باب 6  
  • اعمال باب 7  
  • اعمال باب 8  
  • اعمال باب 9  
  • اعمال باب 10  
  • اعمال باب 11  
  • اعمال باب 12  
  • اعمال باب 13  
  • اعمال باب 14  
  • اعمال باب 15  
  • اعمال باب 16  
  • اعمال باب 17  
  • اعمال باب 18  
  • اعمال باب 19  
  • اعمال باب 20  
  • اعمال باب 21  
  • اعمال باب 22  
  • اعمال باب 23  
  • اعمال باب 24  
  • اعمال باب 25  
  • اعمال باب 26  
  • اعمال باب 27  
  • اعمال باب 28  
×

Alert

×

Urdu Letters Keypad References